جرات مندوں اور بزدلوں کے بیچ لکیر

کہا جاتا ہے کہ کہیں کوئی بھیڑ کا بچہ ساٹھ  فٹ اونچی چٹان پر بیٹھا تھا  ۔ اچانک اس نے نیچے سے  ایک  شیر کو گزرتے دیکھا ۔

 بھیڑ کے بچے نے شیر کو چھوٹا سا پتھرکھینچ کر  مارا اور ہنس کر بولا :

"چچا جان ،السلام علیکم "

شیر نے غصے سے بھیڑ کے بچے کی طرف دیکھا، پھر چٹان کی طرف دیکھا اور اس کے بعد وہ بھی ہنستے ہی ہوئے  کہنے لگا ، : وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ ،  بھتیجے،  یہ تم نہیں بول رہے، یہ در اصل ساٹھ  فٹ اونچی دیوار بول رہی ہے ۔"

دنیا میں آج تک کوئی ایسی دوا، کوئی ایسا علاج دریافت نہیں ہو سکا، جو کمزوردل لوگوں کوجرات  مند بنا سکے، جو کم حوصلہ لوگوں اور بزدل اشخاص کو بہادر، حوصلہ مند اور جرات  مند بنا سکے۔

اندلس کے آخری فرمانروا  ، ابو عبداللہ محمد  جب غرناطہ کی چابیاں فرڈی نینڈ اور ازابیلا کے  حوالے کر کے رو پڑا تو اس کی ماں  ، جس کا  نام عائشہ تھا ، نے  جس جملے سے اسے  غیرت دلاتے ہوئےتسلی  دی تھی ، وہ جملہ تاریخ کے اوراق میں امر ہو گیا۔  ماں نے کہا تھا ، "   بیٹاتم مردوں کی طرح جس سلطنت کی حفاظت نہیں کر  سکے اب اس کے لیے عورتوں کی طرح آنسو نہ بہاؤ۔"

اسی سے ملتی جلتی بات مغل بادشاہ محمد شاہ رنگیلا کو اس کے وزیراعظم نظام الملک نے کی تھی۔ یا کم از کم یہ روایت کی جاتی ہے۔ جب نادر شاہ افشار دلی کی اینٹ سے اینٹ بجا چکا تو   محمد شاہ رنگیلا نے اپنی فوج کی کمزوری اور سلطنت کی رسوائی کے حوالے سے چند حسرت آمیز فقرے کہے تھے ۔ ان کے جواب میں    نظام الملک نے بادشاہ کو کہا تھا ،:

 ظلِ الٰہی ،فوجیں بادشاہوں یا سالاروں  کو جرات مند نہیں بناتیں،بادشاہوں اور جرنیلوں  کی جرات فوجوں کو بہادر بنایا کرتی ہے۔ کاش آپ کی والدہ نے آپ کو دودھ میں جرات گھول کر پلائی ہوتی ۔"

اچھا  جرات مندی کا وراثت سے بھی کچھ واسطہ نہیں، کہ اسی ابو عبداللہ کا باپ انتہائی جرات مند تھا۔ اسی طرح محمد شاہ رنگیلا کے اجداد بھی بہادری کے استعارے تھے، فرخ سیر ، اورنگ زیب ، شاہ جہاں، جہاں گیر ، اکبر ، ہمایوں ،بابر ، کہاں تک سنو گے کہاں تک سناؤں ، کہ یہ تو تیموری لڑی تھی۔ مگر بہادروں کے گھر بزدل اور بزدلوں کے گھر  میں بہادر پیدا ہو جایا کرتے ہیں ۔ سائرس کی داستان تو سب نے سنی ہی ہو گی ناں!!! 

جرات اللہ کا وہ عظیم تحفہ ہے جوادھار ملتا ہے، خریدا جا سکتا ہے اور نہ ہی کسی سے چھینا جا سکتا ہے۔  یہ انسان ساتھ لے کر پیدا ہوتا ہے  اور ساتھ ہی لے کر مرتا ہے۔ممولے کو شاہباز سے لڑایا نہیں جا سکتا۔ 

 چنانچہ جب کوئی کمزور دل، بے  حوصلہ اور بزدل شخص اچانک جرات اور بہادری کا مظاہرہ کرنے لگتا ہے تو جان لیجیے کہ  یقیناً اس کے پیچھے کسی نہ کسی کا ہاتھ  ضرور ہوتا ہے، کسی بزدل شخص کی بہادری بھیڑ کے اس بچے کے سلام سے ملتی جلتی ہے جوساٹھ  فٹ اونچی چٹان پر بیٹھا تھا۔

انگریزی شاعری کے رومانوی عہد کے نمایاں شاعر ، ولیم بلیک  (William Blake) نے اسی  پتے کی بات کو کچھ یوں بیان کیا ہے،

"No bird soars too high, if he flies with his own wings."