فیض ، مجسٹریٹ، ریڈیو اور نظم : مجھ سے پہلی سی محبت

جب سزا سے بچنے کے لیے فیض احمد فیض کو اپنی نظم سنانا پڑی

 

انسان دوست نظریات، اپنے افکار اور انقلابی فکر  اور  اس سب   کے ساتھ ساتھ ، اردو شاعری میں بلند مقام پر فائز فیض احمد  فیض ، بہت سے سنجیدہ تنقید نگاروں کے نزدیک  اردو شاعری کے آخری بڑے شاعر تھے ، اور ان کے ساتھ ہی اردو شاعری کا بھرم بھی ختم ہو گیا۔ فحش گوئی ، گستاخانہ انداز تکلم ، بد لحاظی و بد کلامی ، مذہب کا تمسخر  جیسے اوچھے  ہتھکنڈے اپنائے بغیر اپنا موقف کُلی طور پر بیان کرنے کا ہنر ان کے پہلوں میں  سے تو بہت  سوں میں دیکھا گیا   ، مگر ان کے بعد والوں میں لے دے کر شاید ایک افتخار عارف ہی ان تمام شرائط پر پورے اتر سکیں ۔

کل کی طرح  فیض صاحب کےاشعار ،  انقلابی ترانے اور نظمیں آج بھی ان کی عظمت کی غماز  اور ہر خاص و عام میں ان کی مقبولیت قائم رکھے ہوئے ہیں۔  اردو ادب کی نام ور شخصیات کے حالاتِ زندگی، ان کی تخلیقات اور ان سے جڑی یادوں کو مرزا ظفرالحسن جیسے بڑے لکھاری نے اپنے قلم سے کتابی شکل میں محفوظ کیا جو ہمارا بیش قیمت سرمایہ ہیں۔ انہی کی زبانی فیض احمد فیض سے متعلق ایک دل چسپ واقعہ آپ کے ذوقِ مطالعہ کی نذر ہے۔

برصغیر کی تقسیم سے پہلے کا ذکر ہے۔ اردو کے مایہ ناز شاعر فیض احمد فیض نے اپنے گھر میں ریڈیو تو رکھ لیا تھا مگر نہ اس کا لائسنس بنوایا تھا، نہ فیس ادا کی تھی۔ اس الزام کے تحت انھیں سول عدالت میں طلب کرلیا گیا۔ پیشی کے دن فیض صاحب عدالت میں پہنچے  تومجسٹریٹ فیض صاحب کو اپنے کمرے میں لے گیا اور بڑی عاجزی سے بولا ، "فیض صاحب! میری بیوی کو آپ کی نظم  ، مجھ سے پہلی سی محبت مری محبوب نہ مانگ، بہت پسند ہے۔ 

 وہ مجھے بار بار طعنے دیتی ہے کہ تم ہمیں شاعر سے اس کی ایک نظم بھی نہیں سنواسکتے، خدا  رکھے آپ کے بلا لائسنس ریڈیو کو، اس کے طفیل مجھے آپ سے اپنی  یہ عرض کرنے کا موقع مل گیا۔ "

اس کا کہنا تھا کہ "آپ نے ریڈیو کا لائسنس نہ بنواکر مقدمے کا نہیں بلکہ مجھے ملاقات کا اور میری گزارش سننے کا موقع فراہم کیا ہے، اگر آپ کل شام کی چائے میرے غریب خانے پر پئیں  اور اپنا کلام، بالخصوص پہلی سی محبت والی نظم میری بیوی کو سنائیں تو اس کی دیرینہ آرزو پوری ہوجائے گی۔"

 فیضؔ صاحب نے جواب میں کہا کہ "آپ سمن کے بغیر بھی بلاتے تو میں حاضر ہوجاتا اور نظم سناتا، میں کل شام ضرور آؤں گا۔"

 اس کے بعد فیض صاحب نے مجسٹریٹ سے پوچھا۔محض بے پروائی میں مجھ سے جو جرم سرزد ہوا ہے آپ نے اس کی کیا سزا تجویز کی ہے؟

راوی کے مطابق مجسٹریٹ کا جواب تھا کہ فیضؔ صاحب! ماضی میں اگر آپ نے اس کے علاوہ بھی کچھ جرم کیے ہیں تو ان سب کی معافی کے لیے یہ ایک نظم ہی کافی ہے۔ ریڈیو کا لائسنس بنوا لیجیے بس یہی آپ کی سزا ہے۔