پاک و ہند کے مسلمان اور جذباتیت

مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں تھوک اڑاتے شعلہ بیاں مقرر ، مولا جٹ  سے متاثر بڑھکیں لگاتے خطیب ، مفروضے اور عقل سے پیدل  جذباتیت خوب بکتی ہے۔

پہلی جنگ عظیم کے دوران ہمارے برصغیر (بالخصوص  پنجاب) کے  مسلمان  فوجیوں کی سب سے بڑی تعداد خلافت عثمانیہ کے خلاف لڑ رہی تھی۔ ایک طرف عارف باللہ، ولی کامل، محدثِ ہند، امیر ملت، "پیر سید جماعت علی شاہ" کے خاص تعویذ مسلمان سپاہیوں میں تقسیم ہوا کرتے، کہ ان تعویذوں کی برکت سے ان پر ترکوں کی گولی اثر نہیں کرے گی۔ دوسری جانب اُس وقت کی نامعلوم قوتیں مصطفیٰ کمال کو ہیرو بنا کر پیش کر رہیں تھیں۔ جبری بھرتی سے بچ جانے والے ہر پنجابی نوجوان کی زبان پر یہ اشعار ہوا کرتے تھے۔

غازی مصطفیٰ کمال پاشا وے

 تیریاں دور بلاواں

 کر یونانی بکرے حلال

 وے بیبا وانگ قصائیاں

 ہیرو بنائے جانے کا صلہ جب مصظفیٰ کمال نے خلافت عثمانیہ کا خاتمہ کرکے ادا کیا تو اہل وطن پنجابی کے بجائے اردو نظم کے اشعار گنگنانے لگے۔

بولیں اماں محمد علیؔ کی

 جان بیٹا خلافت پہ دے دو

 ساتھ تیرے ہیں شوکتؔ علی بھی

 جان بیٹا خلافت پہ دے دو

گر ذرا سست دیکھوں گی تم کو

 دودھ ہرگز نہ بخشوں گی تم کو

 میں دلاور نہ سمجھوں گی تم کو

 جان بیٹا خلافت پہ دے دو

حقائق کو جانے پرکھے بغیر اس طرح کی بلاوجہ جذباتیت تخلیق کرکے دانستہ یا نادانستہ عوام کے غم و غصے کو مٹانے کا کام لیا جاتا ہے۔ تاکہ عوام کے جذبات کسی تحریک کی شکل اختیار نہ کر سکیں اور کسی بڑی تبدیلی کا باعث نہ بن سکیں۔

صرف تحریک خلافت کے واقعات ہی دیکھیے۔

اسی دوران کچھ علما نے ہندوستان کو دارالحرب قرار دے کر یہاں سے ہجرت کرنے کا فتویٰ دیا۔ جس پر ہزاروں مسلمانوں نے اپنے گھربار چھوڑ کر افغانستان کی راہ لی۔سینکڑوں خاندانوں نے راستے کی سختیاں جھیلتے ہوئے کسمپرسی میں جان دی اور جو چند ہزار افغانستان پہنچے انہیں بھی حکومت افغانستان کے عدم تعاون کی وجہ سے بدترین جانی و مالی نقصان کا سامنا کرنا پڑا۔

پھر علمائے ہند نےگاندھی کے مشورے پر ترکِ موالات کی کمپین شروع کی۔ جس میں مسلمانوں سے اپیل کی گئی کہ  حکومت کے خطابات واپس کر دیے جائیں۔

سرکاری کونسلوں کی رکنیت سے استعفٰی دے دیا جائے۔

 سرکاری ملازمتوں سے علیحدگی اختیارکر لی جائے۔

مسلمانوں  کےتعلیمی ادارے سرکاری امداد لینا بند کر دیں۔

مسلمان اپنے بچوں کو سرکاری تعلیمی اداروں سے نکال لیں۔

 سرکاری عدالتوں سے اپنے مقدمات واپس لیے جائیں۔

انگریزی مال کا بائیکاٹ کیا جائے۔

ترک موالات کی تحریک کا انگریزوں پر تو کوئی اثر نہ ہوا البتہ مسلمانوں کی چھوڑی ہوئی تمام نشستوں اور عہدوں کو ہندوؤں نے فورا سنبھال لیا۔ جس کا خمیازہ ہندی مسلمان آج تک بھگت رہے ہیں۔

قیادت کی منتشر الخیالی، بلا منصوبہ بندی کیے جانے والے اقدامات اور دوسری جانب عوام کی نری جذباتیت، سوچنے سمجھنے، تحقیق  وتجزیہ اور اختلاف کو گناہ جاننے کی عادت ہی وہ بنیادی مسئلہ ہے جس کی وجہ سے آج ہم ہر طرف سے مار کھا رہے ہیں۔

کاش ہم سمجھ جائیں