اقبال :اردو نظم کا منفرد انداز (حصہ دوم)

مجھے اس سلسلے میں صرف یہ کہنا ہے کہ خضر راہ سے پہلے کی نظموں میں غزل کے اسلوب کا اثر زیادہ ملتا ہے۔ اوریہ طلوع اسلام میں بھی سرایت کئے ہوئے ہے۔ خضر راہ تنظیم کے لحاظ سے ایک چست نظم ہے۔ اب رہا یہ سوال کہ اس کے بندوں میں اشعار کی ترتیب ناگزیر نہیں ہے تو یہ بات صحیح ہے مگر ہربند میں ایک موضوع کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالی گئی ہے اور شاعر اور خضر دونوں کی شخصیت اور مزاج کا لحاظ رکھا گیا ہے۔ سید سلیمان ندوی کو خضر راہ میں جس رنگینی اور کیفیت کی کمی نظر آئی تھی اس کی اقبالؔ نے بڑی اچھی توجیہ کی تھی۔ اس توجیہہ سے اقبالؔ کی فنی بصیرت ظاہر ہوتی ہے اور شاعری کی تیسری آواز سے آگہی بھی۔ اس آواز کی طرف توجہ اقبالؔ کے مکالموں میں بھی ظاہر ہوتی ہے جو مختلف نظموں میں بکھرے پڑے ہیں لیکن جس نقطہ عروج پر رومی و مرید ہندی اور جبریل و ابلیس میں نظر آتا ہے۔
یہ بات قابل غور ہے کہ بانگ درا کی نظموں میں مجموعی طور پر شاعری میں حکمت، بال جبریل کی نظموں میں حکمت میں شاعری اور ضرب کلیم کی نظموں میں نکتہ سنجی و بلاغت کی شاعری ملتی ہے۔ اس مجموعے میں بیشتر بہت مختصر نظموں کی تعداد کا یہی جواز ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اقبالؔ کی بیشتر نظمیں کسی فوری واقعے یا کسی خارجی امر سے متاثر ہوکر لکھی گئی ہیں۔ مگر نظم اس فوری تاثر سے بلند ہو کر ایک ایسی نظر یا نظریے کی حامل ہوگئی ہے جس میں ایک دیرپا آفاقی یا ابدی کیفیت آگئی ہے۔ ترانہ ہندی، حضور رسالت مآبؐ میں، زہد اور رندی، طلبہ علی گڑھ کالج کے نام، موٹر، اسیری، دریوزۂ خلافت، ابی سینا اس کی واضح مثالیں ہیں۔ نظموں میں تمثیلی حکایات کی وہ روایت جو در اصل رومی کی ہے اور جسے اردو میں حالیؔ، شبلیؔ اور اکبرؔ نے کامیابی سے برتا ہے، اقبالؔ کے یہاں بھی جلوہ گر ہے۔ چنانچہ روہیلہ، محاصرۂ اورنہ، جنگ یرموک کا ایک واقعہ اپنی فنی دروبست کی وجہ سے بھی ممتاز ہیں۔
شخصی مرثیوں کی روایت ہمارے یہاں حالیؔ سے شروع ہوئی۔ حالیؔ کے بعد چکبستؔ نے اسے آگے بڑھایا۔ اقبالؔ کا کارنامہ اس سلسلے میں خاصی اہمیت رکھتا ہے۔ نظم مرزا غالبؔ، غالبؔ کے حالیؔ کے مرثیے کے اثرات ظاہر کرنے کے ساتھ ساتھ غالبؔ کے تخیل کی خلاقی اور گوئٹے کی ہمنوائی کی طرف اشارے کی وجہ سے بھی اہم ہے۔ اگرچہ ہم اسے مرثیہ نہیں کہیں گے یہ ایک تاثر ہے لیکن داغ فلسفۂ غم، ہمایوں، والدہ مرحومہ کی یاد میں اور مسعود مرحوم قطعی طور پر شخصی مرثیے کے ذیل میں آتے ہیں۔ ان مرثیوں میں مرنے والے کی صفات اور اس کی رحلت پر الم کی عکاسی کے علاوہ زیادہ توجہ فلسفہ موت و حیات پر ہے جس کی وجہ سے ان میں ایک بلندی اور گہرائی آجاتی ہے۔ اس لئے والدۂ مرحومہ کی یاد میں اور مسعود مرحوم نہ صرف ان کی نظموں میں ایک امتیازی شان کی حامل ہیں بلکہ ان کے مطالعے کے ساتھ ذہن خود بخود بعض مغربی شعرا مثلاً شیلے، ٹینی سن اور ارنلڈ کے مرثیوں کی طرف منتقل ہو جاتا ہے۔ مسعود مرحوم چونکہ آخری دور کی نظم ہے اس لئے اس میں پختگی اور ارتکاز زیادہ نمایاں ہے۔
خالص فنی نقطہ نظر سے اقبالؔ کی چند اہم نظموں کے متعلق کچھ اشارے یہاں ضروری معلوم ہوتے ہیں تاکہ اقبالؔ کے ارتقائے ذہن کے متعلق کوئی قطعی بات کہی جا سکے۔ ان کی پہلی اہم نظم ہمالہ کو لیجئے۔ یہ مسدس کی ہیئت میں ہے اور اس میں آٹھ بند ہیں۔ نقش اول میں تین بند زیادہ تھے جو بانگ درا میں حذف کر دیے گئے ہیں اور یہ نظم اس طرح خاصی چست ہوگئی۔ نظم ہمالہ کی عظمت کے تاثر سے شروع ہوتی ہے، اس کے مناظر کے حسن کا احساس دلاتی ہے، طور سینا، دستار فضیلت، کلاہ مہر عالم تاب، ثریا، کوثر و تسنیم جیسے الفاظ و تراکیب ایک رفعت کا احساس دیتے ہیں۔ منظر نگاری میں حسن بھی ہے اور برگزیدگی بھی، اور یہ سب تصویریں بالآخر ماضی کے ایک سنہرے دور کی یاد تک لے جاتی ہیں جسے رجعت پرستی نہیں کہا جاسکتا ہاں Nostalgia کا نام دیا جا سکتا ہے۔
مسدس ہماری بہت مقبول ہیئت ہے اور مرثیوں کا بیشتر سرمایہ اسی ہیئت میں ہے۔ اس میں پہلے چار ہم قافیہ مصرعوں اور پھر دوکسی اور قافیے میں مصرعوں کی قید ہے اور اس طرح گویا خیال کی سیڑھیاں سی بنتی جاتی ہیں، مسلسل روانی نہیں آپاتی۔ مجھے کچھ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مرثیوں کی مقبولیت کے دور میں مسدس کی ہیئت پر زیادہ توجہ میں کچھ مجلسی آداب کی رعایت بھی تھی یعنی ہر مصرعے کی طرف سامعین کی توجہ دلانا ہوتی تھی اور ٹیپ کے شعر میں گویا پہلے چار مصرعوں کی بات مکمل کرکے سننے والے کے ذہن کو آگے کے لئے تیار کرنا ہوتا تھا یعنی آگے چلیں گے دم لے کر۔ حالیؔ کے مسدس میں اگرچہ فنی چستی زیادہ ہے مگر ٹھہر ٹھہر کر بات کرنے کا انداز بھی ہے۔ بہر حال اقبالؔ نے جواب شکوہ کے بعد مسدس کی ہیئت نہیں برتی اور انہیں ترکیب بند میں زیادہ سہولت محسوس ہوئی جس میں انہوں نے غزل اور مثنوی دونوں کی ہیئت سے کام لیا ہے اور بندوں کی اشعار کی تعداد میں بھی خیال کے اعتبار سے کمی بیشی ہے۔
ہمالہ ان کی بہترین نظموں میں شامل نہیں کی جا سکتی مگر اچھی نظموں میں ضرور شمار کی جائے گی۔ بانگ درا کی ایک اور مختصر نظم ’ایک آرزو‘ کو لیجئے جو قطعہ کہی جا سکتی تھی مگر انہوں نے آخری شعر میں دو الگ ہم قافیے مصرعے شامل کرکے اسے قطعے سے الگ کر دیا اور ایک بند کی شکل دے دی۔ اس نظم میں اقبالؔ کا سحرکار تخیل جو تصویریں تراشتا ہے وہ ان کے مزاج میں رومانیت کی لے کی بڑی اچھی مثالیں ہیں۔ توجہ طلب بات یہ ہے کہ ہمالہ کی لہجہ کی رفعت کے بجائے یہاں لہجہ میں ایک نرمی اور لطیف سرشاری کا احساس ہوتا ہے۔ سکوت جس پر تقریر فدا ہو، ندی کے صاف پانی کی تصویر لینا، پانی کا موج بن کر کہسار کا نظارہ کرنا، پانی کو گل کی ٹہنی کے جھک کر دیکھنے میں کسی حسین کے آئینہ دیکھنے کا منظر اور شام کی دلہن کی آرائش و زیبائش، نظم کا خاتمہ اس کو محض ایک رومانی نظم کے بجائے بیداری کا ایک پیام بنا دیتا ہے اور اس طرح اقبالؔ کے عمومی رنگ سے ہم آہنگ ہو جاتا ہے کیونکہ اقبال کی خلوت بھی بالآخر ایک نئی جلوت کے لئے تیاری ہوتی ہے۔
ایک آرزو‘، ہمالہ‘ سے زیادہ گٹھی ہوئی اور چست نظم ہے اور اس کے خاتمہ میں فطرت کا حسن انسان کے لئے ایک نئی زندگی کا علمبردار بن جاتا ہے۔ منظرنگاری اپنی جگہ حسین ہوتے ہوئے ایک مقصد رکھتی ہے۔ یہ بات بانگ درا کی ایک اور نظم بزم انجم میں اور کھل کر سامنے آتی ہے۔ اس ترکیب بند میں پہلے بند میں پانچ، دوسرے میں چار اور تیسرے بند میں چھ شعر ہیں۔ نظم میں ابتدا، وسط اور تکمیل کے ذریعہ ایک پوری داستان بیان ہوئی ہے۔ منظرنگاری اپنی جگہ ایک دلکشی رکھتی ہے۔ تاروں کے ذریعہ سے پیام کا جواز دوسرے بند میں ہے کیونکہ تاروں کو انسان قسمت کا آئینہ سمجھتا آیا ہے۔ اقبالؔ کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ تغیر کے قائل ہیں گو اس کے ساتھ تسلسل کا احساس بھی ضروری سمجھتے ہیں۔ جذب باہمی والی بات اقبالؔ کی فکر میں مرکزی حیثیت رکھتی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ شروع میں استعارات کے ذریعہ سے مکمل فضا بندی کرنے کے بعد باقی دو بندوں میں فلک اور تاروں کی زبان میں وضاحت اور سلاست و روانی پر زیادہ زور ہے۔ اس طرح اقبال ؔ کا ارتقا مسلم ہوتا ہے۔
اگر ہم بانگ درا کی ان نظموں کا مقابلہ بال جبریل کی دو اہم نظموں جبریل و ابلیس اور لالہ صحرا سے کریں تو ایک طرف اقبالؔ کی نظم گوئی کا اگلا قدم سامنے آجاتا ہے جس میں ڈرامائی اور علامتی دونوں اسالیب کی معراج ملتی ہے۔ دوسرے اقبالؔ نے جس طرح کفایت الفاظ اور بلاغت کے رمز سے آگاہی حاصل کی ہے اس کی روشن مثالیں سامنے آتی ہیں۔ شمع و شاعر اور خضر راہ میں جو کردار ہیں ان پر اقبالؔ کا سایہ گہرا ہے۔ مگر جبریل وابلیس میں اقبالؔ نظر نہیں آتے۔ جبریل وابلیس ہی اپنی آن بان سے نظر آتے ہیں۔ خضر راہ میں زندگی کے بارے میں دو بندوں میں جو کچھ کہا گیا ہے وہ جبریل و ابلیس کے ایک مصرع میں آگیا ہے۔ درد و داغ، سوز و ساز، آرزو و جستجو زندگی پر بھرپور تبصرہ ہے۔ اس نظم میں ڈرامے کی ساری شان جلوہ گر ہے اور اس کے ساتھ ابلیس کے کردار کی معنویت بھی۔ آخری بند میں گوئٹے کے مینی فیسٹو کے اثرات ضرور ملتے ہیں مگر خواجہ منظورحسین کا یہ قول دہرانا میں ضروری سمجھتا ہوں کہ یہ نظم گوئٹے کی نظموں کے مقابلے میں رکھی جا سکتی ہے۔
لالہ صحرا کے متعلق بہت کچھ لکھا گیا ہے اس لئے اس پر تفصیل سے اظہار خیال کی ضرورت نہیں۔ یہ کہنا کافی ہے کہ یہ ایک مکمل علامتی نظم ہے۔ لالہ صحرا کی علامت شاہین سے زیادہ فکر انگیز اور بصیرت افروز ہے۔ کلیم الدین احمد کواس میں اقبالؔ کے ایگو کی دخل اندا زی ناگوار ہے۔ مگر تقابل کے لئے اس کا وجود ضروری تھا۔ ضرب کلیم کی نظموں میں سب سے بلند شعاع امید ہے۔ یہ اگرچہ ہمالہ کی یاد دلاتی ہے مگر اس کے براہ راست بیان کے مقابلے میں شعاع امید کی بالواسطہ صناعی بہتر ہے۔ کچھ لوگوں کو آخری شعر سے پہلے کے دو شعروں میں ایک انحراف دکھائی دیتا ہے۔ حالانکہ افرنگ کی مشینوں کے دھویں سے سیہ پوش اور مشرق کی عالم لاہوت کی سی خاموشی کا پہلے جو ذکر آیا ہے اس سے یہاں مطابقت ملتی ہے۔ پھر شعاع امید جو مشرق کے ہر ذرے کو جہاں تاب کرنے کا عزم کر چکی ہے اور ہندوستان کی عظمت کو جانتی ہے، ان دو اشعار کے بغیر اپنے مشن کو کیسے پورا کرتی۔ نظم کے آخری شعر کی اہمیت یہ ہے کہ ہندوستان کی بیداری کو دنیا کی ہر شب کو سحر کرنے کا ذریعہ بنایا ہے۔
اسلوبیات اور ساختیات کے بعض عالموں نے اعداد و شمار کے ذریعہ سے یہ واضح کرنے کی کوشش کی ہے کہ اظہار کا معیاری فارم نثر ہے۔ شاعری اس معیاری فارم سے انحراف یا اس میں وقفوں کا نام ہے۔ ان کی تحقیق کے مطابق کلاسیکی شاعری میں نثر کے معیار سے انحراف کا تناسب نسبتاً کم ہے۔ اس لئے ہمارے یہاں سہل ممتنع پر زور دیا گیا تھا۔ رومانی شاعری میں زیادہ اور جدید شاعری میں اس سے زیادہ۔ اگر اقبالؔ کی نظموں کی لفظ شماری اس اصول کے مطابق کی جائے تو میرا خیال یہ ہے کہ کلاسیکی معیار کے مطابق انحراف زیادہ نہ ملے گا۔ مگر بعض نظموں میں رومانی اور جدید شاعری کے مطابق انحرافات بھی مل جائیں گے۔ اقبالؔ اگرچہ اپنے فن میں کلاسیکی نظم و ضبط کے قائل ہیں مگران کے یہاں رومانی لے اور جدید اثرات کے نقوش اتنے واضح ہیں کہ وہ قدیم ہوتے ہوئے جدید اور جدید ہوتے ہوئے قدیم کہے جا سکتے ہیں۔ تجربہ کرنے والے شعرا کی اہمیت مسلم مگر بڑی شاعری میں قدیم و جدید کا ایک اجتماع ہوتا ہے اور اسی سے اس کی آفاقیت کے متعلق حکم لگایا جاتا ہے۔
اقبالؔ نے نظم کو بڑی حد تک براہ راست فارم کے سلسلے میں ہچکچاہٹ کا شکار اور الفاظ کے استعمال کے سلسلہ میں بے احتیاط پایا۔ انہوں نے اسے مختلف تجربات کے ذریعہ خاصا بالواسطہ، الفاظ کے معاملہ میں خاصا باشعور، اور مکالماتی اور ڈرامائی پہلو کے لحاظ سے خاصا سرمایہ دار چھوڑا۔ انہوں نے تشبیہات کی آرائش و زیبائش سے بھی کام لیا اور استعارات کی معنی آفرینی اورحسن آفرینی سے بھی اور آخر میں علامتی اظہار پختگی اور Epigram کی دیدہ دری سے بھی۔ غزل سے ان کی نظم گوئی ضرور متاثر رہی مگر اس نے آخر میں اس سے آزادی حاصل کرنے کا ثبوت ضرور دیا۔ اس نے مختصر اور طویل دونوں طرح کی نظموں کے ذریعہ سے نظم کے فارم کی طرف ہماری رہنمائی کی۔ اقبالؔ کی نظم مغربی نظم سے متاثر ضرور ہے مگر طواف شمع سے آزاد اور اپنی فطرت کے تجلی زار میں آباد ہے۔ اقبالؔ سےاردو نظم بلوغیت کی منزل میں داخل ہوتی ہے۔ یہ ہماری شاعری میں پابند شاعری کی معراج ہے۔ آزاد نظم کی کہانی اس کی وجہ سے ہی ممکن ہو سکی۔
اقبالؔ نے بہت سی بحر یں استعمال کی ہیں۔ بانگ درا میں ان کا تنوع زیادہ ہے مگر گیان چند جین کے یہ خیالات درست نہیں کہ بال جبریل میں حجازی لے کی وجہ سے چند بحروں پر ہی توجہ رہی۔ در اصل بانگ درا کی شاعری ہر طرح کے تجربات کی شاعری ہے۔ اس میں عمومیت زیادہ ہے۔ بال جبریل اور ضرب کلیم کی شاعری مخصوص سمتوں اور مخصوص زاویوں کی شاعری ہے جس کی بلندی میں کلام نہیں۔ ان مخصوص سمتوں کے لئے مخصوص بحروں کا استعمال سمجھ میں آتا ہے۔ اقبالؔ کے مطالعے میں ان کی مذہبی حسیت کی وجہ سے بعض تہذیب کے فرزند اس کے شاعرانہ اظہار سے انصاف نہیں کر پاتے۔ بالکل اسی طرح جس طرح بعض اہل مسجدان کے مذہبی تصورات کی وجہ سے ہی ان کی شاعری کو اہمیت دیتے ہیں۔ اسی طرح بالواسطہ شاعری کی برتری کو تسلیم کرتے ہوئے ساری دنیا کے ادب میں براہ راست شاعری کے خاصے نمایاں سرمائے کو نظرانداز کرنا اور اس وجہ سے اقبالؔ کی شاعری کے مقصدی حصے کو شاعری نہ سمجھنا بھی کفران نعمت کے مترادف ہے۔ اقبال شناسی ہی نہیں حسن شناسی اور فن شناسی ہی در اصل حسن اور فن کے ہر معجزے کے عرفان کا نام ہے۔ بقول اقبال،
تو ہی ناداں چند کلیوں پر قناعت کر گیا
ورنہ گلشن میں علاج تنگی داماں بھی تھا