زندگی کو موت کی زد پر جو لا سکتا نہیں

زندگی کو موت کی زد پر جو لا سکتا نہیں
موت کے آغوش میں وہ مسکرا سکتا نہیں


اس کی تہمت اپنے سر بار امانت لے لیا
بوجھ وہ انساں جو اپنا بھی اٹھا سکتا نہیں


ربط ہے ہر شے سے پھر بھی اس جہاں میں دوستو
آدمی خود آدمی کے کام آ سکتا نہیں


یہ جہاں ہے آزمائش گاہ ارباب وفا
لاکھ چاہے بھی تو انساں مسکرا سکتا نہیں


کیا اسی کا نام ہے ساقی تری دریا دلی
مے تو مے پانی بھی تو ہم کو پلا سکتا نہیں


عزم کا سورج لیے میں جگمگاتا ہوں نشاطؔ
ان اندھیروں کو کبھی خاطر میں لا سکتا نہیں