مرا وجود سمندر نہیں میں قطرہ ہوں
مرا وجود سمندر نہیں میں قطرہ ہوں
ہر ایک موج کی آغوش میں مچلتا ہوں
میں مشت خاک ہوں گرد و غبار جیسا ہوں
تمام وسعت عالم پہ پھر بھی چھایا ہوں
قضا و قدر کا منظر مری نگاہ میں ہے
حیات ور ہوں اجل سے نظر ملاتا ہوں
یہ دہشتوں کے چھلاوے یہ آفتوں کے پہاڑ
خدا کا شکر کہ اس دور میں بھی زندہ ہوں
اڑائیے نہ ہواؤں میں میری باتوں کو
صدائے وقت ہوں میں وقت کا تقاضا ہوں
کوئی بھی روپ ہو پہچان لوں گا میں تجھ کو
میں کائنات کی ہر چیز سے شناسا ہوں
ازل سے ہے تو مرے علم میں کی تو کیا ہے
بتا سکے تو بتا دے مجھے کہ میں کیا ہوں
دلوں میں اتریں نہ کیوں سب کے میرے شعر نشاطؔ
جو بات کہتا ہوں میں تجربہ کی کہتا ہوں