جب تک کہ دل میں جذبۂ دیوانگی نہ ہو
جب تک کہ دل میں جذبۂ دیوانگی نہ ہو
لذت کش حیات وفا بے خودی نہ ہو
کیا وہ کریں گے جلوۂ جاناں کی آرزو
جن کی نظر میں جرأت نظارگی نہ ہو
گھبرا گیا ہوں زیست کی تلخی سے اس قدر
اس زندگی کے بعد کوئی زندگی نہ ہو
مانا خوشی میں ہوتا ہے بے خود ہر آدمی
خود کو بھی بھول جاؤں میں ایسی خوشی نہ ہو
آ اے غم حیات تجھے ڈھونڈھتا ہے دل
وہ زیست کیا کہ جس میں غم زندگی نہ ہو
دنیا کی تیرگی کو مٹائیں گے کس طرح
جن کے دل و نگاہ میں کچھ روشنی نہ ہو
رہ رہ کے اٹھ رہا ہے ہر اک سمت کیوں دھواں
نفرت کی آگ شہر میں ہر سو لگی نہ ہو
فکر سخن کے واسطے غم چاہئے نشاطؔ
جب تک کہ دل میں درد نہ ہو شاعری نہ ہو