مانا رہ حیات میں تنہا حیات ہے

مانا رہ حیات میں تنہا حیات ہے
محسوس ہو رہا ہے کوئی ساتھ ساتھ ہے


کیا غم بچھڑ گیا ہوں اگر کارواں سے میں
تم ساتھ ہو تو ساتھ مرے کائنات ہے


وہ مسکرا دیے تو ہے عالم ہی دوسرا
روشن مری حیات کی تاریک رات ہے


شاید ہے منتشر ابھی شیرازۂ وجود
کیوں ورنہ آدمی سے گریزاں حیات ہے


میں حادثات دہر کو الزام کیسے دوں
اپنی تباہیوں میں خود اپنا ہی ہاتھ ہے


دو گھونٹ تو بھی چکھ لے کہ ہو جائے لا زوال
اے موت میرے ہاتھ میں جام حیات ہے


کانٹے ملے کسی کو کسی کو ملے ہیں پھول
یارو یہ اپنے اپنے مقدر کی بات ہے


دست خزاں بہار کو چھوتا نہیں نشاطؔ
تم جس کو موت کہتے ہو وہ بھی حیات ہے