روشنی کب تھی مرے داغ جگر سے پہلے
روشنی کب تھی مرے داغ جگر سے پہلے
اس نے پائی ہے ضیا شمس و قمر سے پہلے
اشک اب تک مری آنکھوں سے نہ برسے پہلے
ہونٹ شبنم کے بھی اک بوند کو ترسے پہلے
جس کی تنویر میں پنہاں تھیں ہزاروں ظلمات
اک سحر ایسی بھی دیکھی ہے سحر سے پہلے
میری خوددار طبیعت کا تقاضا تھا یہی
آشیاں پھونک دیا برق و شرر سے پہلے
پھر زمانے کی نظر میری طرف کیوں اٹھی
بچ کے چلنا تھا مجھے ان کی نظر سے پہلے
وسعت کون و مکاں غرق ہوئی ہے جس میں
ایسے طوفاں بھی اٹھے دیدۂ تر سے پہلے
خلد کہتے ہیں جسے ہے وہ اسی کا خاکہ
علم تھا کب یہ تری راہ گزر سے پہلے
چیر کر ظلمت شب وقت کے تیشہ سے نشاطؔ
اک نئی صبح ابھاریں گے سحر سے پہلے