سکون دل کو نظر کو مری قرار نہیں
سکون دل کو نظر کو مری قرار نہیں
یہ ایک مرگ مسلسل ہے انتظار نہیں
کلی کے لب پہ تبسم کو ڈھونڈنے والو
برائے نام بھی گلشن میں اب بہار نہیں
ہمیں پہنچنے سے منزل پہ کون روکے گا
ہماری راہ میں جب یاس کا غبار نہیں
کرو وہ مشق کہ ہنستے رہو خزاں میں بھی
گل و چمن میں بہاروں پہ اعتبار نہیں
خدا بچائے گلوں کو فریب گلشن سے
فقط بہار کا دھوکا ہے یہ بہار نہیں
قسم ہے عظمت مے خانۂ محبت کی
گھٹا ہے جام ہے ساقی ہے بادہ خوار نہیں
نشاطؔ پینے پلانے کی آرزو بے کار
اٹھا نہ جام ابھی موسم بہار نہیں