کب ہوس کاروں نے دنیا کے دہانے دیکھے

کب ہوس کاروں نے دنیا کے دہانے دیکھے
ڈوبنے کے جو تھے دنیا میں ٹھکانے دیکھے


اپنے خلوت‌ کدۂ غم میں رہے اہل حجاب
بے حجابی نے تو محشر کے زمانے دیکھے


سرخیاں جن کی ہیں مرکوز نگاہ عالم
تم نے وہ قصے پڑھے ہیں جو فسانے دیکھے


ایک ہلکا سا بھی پرتو نظر آیا نہ ترا
یوں تو ہم نے بھی کئی آئنہ خانے دیکھے


دور جب حق و صداقت سے ہوئے اہل خرد
ہر نفس اپنی تباہی کے ٹھکانے دیکھے


آج تک ان کی حقیقت نہ کھلی ہم پہ نشاطؔ
خواب ہی رہ گئے جو خواب سہانے دیکھے