زندگی کا پہلو ہے اس کی لال آنکھوں میں
زندگی کا پہلو ہے اس کی لال آنکھوں میں
اس نے دھول کھائی ہے جانے کتنی راہوں میں
دل فریبی میں اس کو یہ ہنر بھی آتا ہے
سانسیں روک دیتا ہے یوں ہی باتوں باتوں میں
غار توڑنے پر بھی راہ کھل نہیں پاتی
راستے نکلتے ہیں خود کبھی چٹانوں میں
بے گھری کا مطلب تو در بدر نہیں ہوتا
کچھ ملنگ رہتے ہیں دل کے آستانوں میں
آدمی فرشتوں کو بھی فریب دیتا ہے
کچھ گناہ ہوتے ہیں نیکیوں کی بانہوں میں
ساز توڑ دینے سے سوز تو نہیں تھمتے
کچھ پیام جاتے ہیں سرد سرد آہوں میں
شہر بھر کے دیوانے اس کا نام لیتے ہیں
اس کا ذکر ہوتا ہے ساری خانقاہوں میں
ایک ساتھ رہ کر اب دور ہیں سبھی بشریٰؔ
ایک ساتھ رہتے تھے لوگ اچھے وقتوں میں