تہمت عشق جب اٹھا لی ہے
تہمت عشق جب اٹھا لی ہے
پھر کیوں انصاف کا سوالی ہے
آج میں خود سے بحث کرتی رہی
اور اب میرا ذہن خالی ہے
تیرا کوئی نہ تھا مثالیہ یار
بے وفائی بھی تو مثالی ہے
حافظہ میں نے آج جانے دیا
اک تری یاد ہی بچا لی ہے
ہم ہیں اکیسویں صدی کے لوگ
ہم نے خود میں جگہ بنا لی ہے
بشریٰؔ خود ہی دکھایا دل اپنا
اپنے ہی دل سے پھر دعا لی ہے