زندگی جینے کا یوں ہم نے سہارا کر لیا
زندگی جینے کا یوں ہم نے سہارا کر لیا
ان کا ہر تیر ستم ہنس کر گوارا کر لیا
ذہن میں محفوظ ہیں جلوے ابھی اس شوخ کے
دل پریشاں جب ہوا ان کا نظارہ کر لیا
دوستوں میں کوئی بھی میرا نہیں تھا ہم خیال
اس لیے احباب سے میں نے کنارہ کر لیا
ایک پتھر دل سے ٹکرائے تو یہ لگنے لگا
ہم نے خود اپنے جگر کو پارہ پارہ کر لیا
دیکھنے والے بہت تھے کوئی سمجھا ہی نہیں
آنکھوں ہی آنکھوں میں اس نے کھیل سارا کر لیا
جو مقدر میں نہیں تھا اس کو پانے کے لیے
اس قدر الجھے کے خود اپنا خسارہ کر لیا
ہم فقیروں کو نہیں کچھ تر نوالوں سے غرض
روکھی سوکھی کھا کے بھی اپنا گزارہ کر لیا
اس نے تقریروں سے اپنی نفرتیں پھیلائیں تھیں
شاعری سے ہم نے قائم بھائی چارہ کر لیا
زندگی بھر ساتھ اب اس کا نبھانا ہے تمہیں
جس نے اپنے نام رہبرؔ غم تمہارا کر لیا