ایسے جذبات میں لہجے کو نہ پتھر کیجے
ایسے جذبات میں لہجے کو نہ پتھر کیجے
گفتگو مجھ سے ذرا آپ سنبھل کر کیجے
یہ نہ ہو آپ کی تحریر ہی باغی ہو جائے
ظلم اتنا بھی نہ قرطاس و قلم پر کیجے
مجھ سے رنجش ہے تو میدان میں آ جائیے آپ
میری تصویر کے ٹکڑے نہ بہتر کیجے
میرا دعویٰ ہے کہ حالات بدل جائیں گے
سامنا آپ جو حالات کا ڈٹ کر کیجے
چاہتے آپ ہیں جو ذہن کشادہ رکھنا
بغض و نفرت کے خیالات کو باہر کیجے
دوسروں پر تو کرم آپ کا رہتا ہے مگر
اک نظر میری بھی جانب مرے دلبر کیجے
بات بنتی ہے محبت سے بھی اکثر رہبرؔ
دل میں پیوست نہ الفاظ کے نشتر کیجے