رمز حیات عالم فانی میں کھو گیا

رمز حیات عالم فانی میں کھو گیا
میرا وجود نقل مکانی میں کھو گیا


کیا جانے کیا کشش تھی تمہارے کلام میں
جس نے سنا وہ لفظ و معانی میں کھو گیا


جو دور تک نہیں تھے وہی اب ہیں سامنے
کردار میرا اس کی کہانی میں کھو گیا


دریا سے بھی کہیں کوئی سیلاب جب اٹھا
وہ بھی ان آنسوؤں کی روانی میں کھو گیا


جو کچھ کہا نظر نے نظر سے سنے وہ کون
ہر شخص گفتگوئے لسانی میں کھو گیا


دنیائے علم و فن میں جو حاصل تھا کل اسے
سارا کمال چرب زبانی میں کھو گیا


احساس پھر ضعیفی میں رہبرؔ ہوا انہیں
لطف حیات جن کا جوانی میں کھو گیا