جو تمام عمر بن کر مرا حوصلہ رہی ہے
جو تمام عمر بن کر مرا حوصلہ رہی ہے
وہی آج میری غیرت مجھے آزما رہی ہے
مری فکر جانے مجھ کو کہاں لے کے جا رہی ہے
کہ قدم قدم پہ منزل سر راہ آ رہی ہے
نہیں چھوڑتی ہے مجھ کو کسی موڑ پر یہ دنیا
میں اسے رلا رہا ہوں یہ مجھے رلا رہی ہے
تو یہ جانتا ہے پھر بھی نہیں فکر آخرت کی
تری موت رفتہ رفتہ ترے پاس آ رہی ہے
جو اب آ گئے ہو تم تو مجھے چھوڑ کر نہ جانا
کہ تمہارے بن یہ ہستی بڑی بے مزہ رہی ہے
مری زندگی کے مالک میں یہ تجھ سے پوچھتا ہوں
مجھے کیوں جہاں میں بھیجا مری کیا خطا رہی ہے
یہ نہ ہو کہ وقت آخر رہے دل کی بات دل میں
مری جان اب تو آ جا مری جان جا رہی ہے
جو تمہیں ملا ہے منصب اسے دائمی نہ سمجھو
کسی ایک کی حکومت یہاں کب سدا رہی ہے
مجھے اب یہ لگ رہا ہے وہ خزاں تھی ٹھیک رہبرؔ
یہ بہار کیسے کیسے نئے گل کھلا رہی ہے