تمہارے ہونٹ جن کے ذکر کی گرمی سے جلتے ہیں
تمہارے ہونٹ جن کے ذکر کی گرمی سے جلتے ہیں
ہمارے جیسے دیوانے انہیں راہوں پہ چلتے ہیں
جنہیں قرطاس پر لاؤں تو اک ہنگامہ ہو جائے
شب تنہائی میں اکثر کچھ ایسے شعر ڈھلتے ہیں
بتاؤ چین سے کیسے رہیں ہم ایسی وادی میں
جہاں گلشن کے رکھوالے ہی کلیوں کو مسلتے ہیں
ترے آگے نہ اپنا سر جھکائیں تو کہاں جائیں
کہ ہم روز ازل سے ہی ترے ٹکڑوں پہ پلتے ہیں
مچل جاتا ہے دل ویسے ہی تم کو دیکھنے کے بعد
کھلونا دیکھ کر جس طرح سے بچے مچلتے ہیں
پہنچتی ہے مقام انتہا پر بندگی جس دم
ہمارے پاؤں کی ٹھوکر سے بھی چشمے ابلتے ہیں
تمہاری رہبری قائم رہے گی پھر بھی اے رہبرؔ
نکل جانے دو کچھ لوگوں کو گر آگے نکلتے ہیں