اپنے ماضی کو چراغوں میں بسر ہم نے کیا
اپنے ماضی کو چراغوں میں بسر ہم نے کیا
کٹ گئی رات تو دیدار سحر ہم نے کیا
صرف جنگیں ہی نہیں جیتی ہیں ہیں اس دنیا میں
معرکہ عشق کے میداں کا بھی سر ہم نے کیا
دیکھنے والوں کی حیرت کا ٹھکانہ نہ رہا
ایک پتھر کو جو چمکا کے گہر ہم نے کیا
چاند میں عکس نظر آیا ہے تیرا جب سے
حسن والے تجھے منظور نظر ہم نے کیا
کون سچ بولتا ہے ظالم و جابر کے خلاف
کام دنیا میں یہ بے خوف و خطر ہم نے کیا
بھول پانا اسے آساں تو نہیں تھا یارو
کام یہ تھوڑا سا مشکل تھا مگر ہم نے کیا
تب کہیں جا کے غزل رنگ ہے لائی رہبرؔ
صرف اشعار میں جب خون جگر ہم نے کیا