کون سی تعلیم بچے کو زندگی میں کامیاب بنا سکتی ہے؟

ماں باپ اپنے چھوٹے چھوٹے بچوں  کو اچھے سے اچھا سکول تلاش کرکے اس میں  بھیجتے ہیں اور ہزاروں روپے خرچ کرتے ہیں تاکہ ان کی بنیادی تعلیم اچھی ہو ۔ پھر اسی طرح اچھے کالج اور یونیورسٹی میں داخلہ ہو اور ہمارے بچے کوئی اعلی ڈگری حاصل کر سکیں جو ان کے لیے فخر کا باعث ہو ۔ عموماً یہ سب پاپڑ اس لیے بیلے جاتے ہیں کہ  اس کے سبب ملنے والی اچھی جاب ان کے مستقبل کی ضامن ہو۔ دور جدید میں جو نظام تعلیم رائج ہے وہ محض ذریعہ روزگار ہے۔ ایسی تعلیم جس پر محنت، دولت اور وقت اس لیے صرف کیا جاتا ہے کہ زندگی کے بیش از بیش مادی فوائد اور آسائشیں حاصل کی جاسکیں۔

کچھ عرصہ پہلے ایک تحقیق منظر عام پر آئی تھی جس کے مطابق اب اکیسویں صدی میں محض رسمی تعلیم انسان کے لیے کافی نہیں ہوگی بلکہ اس سے آگے بڑھ کر نوکری کا انٹرویو دینے والے فرد سے پوچھا جائے گا کہ کیا اس میں لیڈرشپ  اور ٹیم ورک کی صلاحیت ہے یا نہیں، کیا وہ تنقیدی سوچ critical thinking کرسکتا ہے، کیا وہ منطقی ذہن رکھتا ہے۔ گویا تعلیم کا اصل مقصد تو ان صلاحیتوں کو پروان چڑھانا ہے جو اگر نوجوان میں نہیں تو وہ مستقبل میں کوئی  کامیاب نوکری بھی حاصل نہیں کرسکتا۔

جہاں تک صلاحیت کا تعلق ہے تو یہ تحقیق بھی پیش نظر رکھیے کہ مائیکروسافٹ، گوگل اور اسی طرح کے بڑے اداروں نے حال ہی میں اپنے ہاں نوکری حاصل کرنے کے طریقہ کار کو بالکل بدل دیا ہے۔ یعنی اب نوکری ڈگری  کی بنیاد پر نہیں دی جائے گی بلکہ صلاحیت کی بنیاد پر دی جائے گی۔ ان کمپنیوں نے اعلان کیا ہے کہ وہ نوکری حاصل کرنے والے امیدواروں سے نہ تو ان کی ڈگری پوچھیں گے اور نہ ہی وہ یونی ورسٹی جس سے انہوں نے ڈگری حاصل کی ہوگی، بلکہ وہ انہیں کوئی پراجیکٹ دیں گے اور اس پراجیکٹ میں کامیابی اور اس کی کوالٹی کے لحاظ سے ان کی تنخواہ اور مراعات  کا فیصلہ کریں گے۔

ابھی حال ہی میں اقوام متحدہ کے ادارے یونیسکو کے تحت پندرہ ممالک پر مشتمل ایک تعلیمی کمیٹی نے  کچھ سٹڈیز کی ہیں اور بتایا ہے کہ اگر تعلیم بچوں میں منطقی ذہن، ایک دوسرے سے تعاون کی صلاحیت اور ایک دوسرے کی برداشت نہیں پیدا کررہی تو وہ تعلیم ناکام ہے۔ اسی طرح دیگر کئی تحقیقات سے یہ معلوم ہوا ہے کہ جس قدر ضروری بچے کا اپنے مضمون میں اچھا ہونا ہے، اسی قدر یہ بھی ضروری ہے کہ وہ دوسروں کے ساتھ مل کر کام کرسکے، یعنی اس کی جذباتی نشوونما اس طور ہو کہ وہ ٹیم ورک کرسکے، دوسروں کو برداشت کرسکے، لیڈ کرسکے اور اس سے آگے بڑھ کر نت نئے آئیڈیاز کے ذریعے سے مسلسل سیکھ کر اپنے کام کو بہتر بنا سکے۔ یہ سب وہ جدید تصورات ہیں جو ترقی یافتہ دنیا تو اپنے سکولوں میں بچوں کو سکھانا کب کا شروع کرچکی ہے لیکن ہمارے ہاں ابھی تک وہی روایتی درسی کتابوں میں قید تعلیم بچوں کو فراہم کی جارہی ہے اور اس کے نتیجے میں محض رٹو طوطے تیار کرکے معاشرے کو سپلائی کیے جارہےہیں۔

ہم تو اس سے بھی آگے بڑھ کر ایک اور بات کرنا چاہتے ہیں ۔ وہ یہ کہ ہمارے ہاں تو تعلیم اللہ تعالیٰ اور بندے کے درمیان  بندگی کے تعلق کی پہچان کا نام ہے جسے بندگی کہا جاتا ہے۔ یہ بندگی ہم کہاں اپنے بچوں کو سکھا رہے ہیں۔ ہمارے نزدیک تو تعلیم اسلاف سے محبت اور اپنے بڑوں کے ادب کا نام ہے، ہم یہ ادب اور تعظیم کہاں اپنے بچوں میں منتقل کررہے ہیں۔

ہمیں چاہیے کہ ہم نوکری کے ساتھ ساتھ بلکہ اس سے بھی زیادہ اس بات کی فکر کریں کہ ہمارے بچے ہماری ان اقدار کو سیکھ لیں۔ رہا روزی کا وعدہ تو وہ تو اللہ کا ہے ہی ، ہاں البتہ انسان کے لیے کوشش کی شرط  ضرور رکھی گئی ہے ۔

متعلقہ عنوانات