زندگانی حباب کی سی ہے

زندگانی حباب کی سی ہے
ہست و بود اپنی خواب کی سی ہے


ہے ہر اک سانس اک ورق جیسا
زیست اپنی کتاب کی سی ہے


ان کی مستانہ انکھڑیاں توبہ
کوئی دوکاں شراب کی سی ہے


تشنہ کام ہوس تو کیا جانے
ارے دنیا سراب کی سی ہے


چاک ذاتی کا عیب بھی ہے کمال
کیا قبا بھی گلاب کی سی ہے


چھیڑ مجھ کو کو راز دل سن لو
میری حالت رباب کی سی ہے


حدت ناز غم معاذ اللہ
دل کی حالت کباب کی سی ہے


دشمن ہوش ہے شباب کا دور
اس میں مستی شراب کی سی ہے


کیوں نہ خونریزیاں ہوں دنیا میں
آمد اک انقلاب کی سی ہے


عشق میں تیرے تلخئ غم بھی
مجھ کو اک شہد ناب کی سی ہے


زیست میں مرگ ہے تو مرگ میں زیست
حالت اک موج آب کی سی ہے


صفت و ذات ایک ہیں دراصل
نسبت آب و حباب کی سی ہے


بخشش اہل کرم کی اے ذائقؔ
تابش آفتاب کی سی ہے