وہ آ رہے ہیں حسن خود آرا لئے ہوئے

وہ آ رہے ہیں حسن خود آرا لئے ہوئے
ہے ذرہ ذرہ بخت ثریا لئے ہوئے


جوش الم دروغ خمار نشاط جھوٹ
تیرا ہی وہم ہے یہ تماشا لئے ہوئے


ان کا حریم ناز ہے غارت گر حواس
لوٹا ہے کون قلب شکیبا لئے ہوئے


بے خود نہ کیوں کسی کے تصور میں ہم رہیں
ہر ہر نفس ہے ساغر صہبا لئے ہوئے


موجوں کا جوش دیتا ہے طوفان کی خبر
امروز ہے حقیقت فردا لئے ہوئے


باغ جہاں کی سیر کو ذوق نظر ہے شرط
نرگس نہ بن تو دیدۂ بینا لئے ہوئے


ذائقؔ چھپائے رکھتا ہوں یوں دل میں راز دوست
جیسے صدف میں گوہر یکتا لئے ہوئے