جیتے جی خود سے محبت میں گزرنا ہے مجھے

جیتے جی خود سے محبت میں گزرنا ہے مجھے
صورت موجۂ رواں مٹ کے ابھرنا ہے مجھے


یاد میں ان کی میں خوں نابہ فشاں کیوں نہ رہوں
رنگ اب عشق کی تصویر میں بھرنا ہے مجھے


خضر ہیں وہ کہ تھی جن کو ہوس آب حیات
بہتر از زیست ترے عشق میں مرنا ہے مجھے


ہر شب اس حیلے سے آتی ہے چمن میں شبنم
موتیوں سے منہ ہر اک پھول کا بھرنا ہے مجھے


وعدۂ دید اٹھا رکھتے ہو کیوں محشر پر
صاف یہ کیوں نہیں کہتے کہ سنورنا ہے مجھے


سانس کو چلتے ہوئے دیکھ کے میں جان گیا
جامۂ عمر اسی قینچی سے کترنا ہے مجھے


ذوق آگیں میں غزل کیوں نہ سناؤں ذائقؔ
نام ہے جیسا مرا کام بھی کرنا ہے مجھے