آیا ہے مجھ کو ایک بت سیم بر سے خط
آیا ہے مجھ کو ایک بت سیم بر سے خط
میں کیوں جواب میں نہ لکھوں آب زر سے خط
اللہ رے شوق سلسلۂ نامہ و پیام
اک خط گیا ادھر سے اک آیا ادھر سے خط
کیا جانوں ہوگا حرف تمنا بھی یا نہیں
بھیگا تھا لکھتے وقت مری چشم تر سے خط
نامہ عمل کا دیکھ نہ اے داور نشور
اس پر تو کھینچ خامۂ رحمت اثر سے خط
ہر لفظ اس کا وحی نہ کیوں ہو مرے لئے
لکھا ہے اس نے طائر سدرہ کے پر سے خط
اس پر فریفتہ کہیں قاصد بھی ہو نہ جائے
میں بھیجتا نہیں اسی وہم و خطر سے خط
ذائقؔ علی کے نام کو مشکل میں آزما
گردن پہ تیغ کا نہ پڑے اس سپر سے خط