منت کش علاج مسیحا نہیں رہا
منت کش علاج مسیحا نہیں رہا
کیا غم اگر مرض سے افاقہ نہیں رہا
کثرت میں امتیاز ہے وحدت میں کچھ نہیں
قطرہ ملا جو بحر میں قطرہ نہیں رہا
دل میں تو جلوہ گر ہیں نگاہوں سے دور ہیں
پردے کی بات یہ ہے کہ پردہ نہیں رہا
جو بھی رہا عمل کے نتائج سے بے نیاز
ہرگز وہ نا مراد تمنا نہیں رہا
جس میں خودی نہیں اسے جینے کا حق نہیں
یکساں ہے وہ جہاں میں رہا یا نہیں رہا
ہاں آسمان غم مجھے اہل زمیں کہیں
کب تار اشک رشک ثریا نہیں رہا
ذائقؔ اگر ہو کہنی تو کہئے مفید بات
ہرزہ سرائیوں کا زمانہ نہیں رہا