زمین بیچ کے تارے بسانا چاہتے ہیں

زمین بیچ کے تارے بسانا چاہتے ہیں
یہ کون لوگ خلاؤں میں جانا چاہتے ہیں


کبھی وہ شعر کہا کرتا تھا ہمارے لیے
ہم اس کے شعر اسی کو سنانا چاہتے ہیں


وہ چاہے جھوٹ میں اقرار تو کرے اک بار
ہم اس کے جھوٹ پہ ایمان لانا چاہتے ہیں


ہم اس کی آنکھ میں رہ کر بھی آنسوؤں میں رہے
جسے ہم اپنی رگوں میں سمانا چاہتے ہیں


ہمیں خبر ہے یہ دنیا تباہ کر دیں گے
ہم ایسے لوگوں کا شجرہ بتانا چاہتے ہیں


یہ دوست دوست نہیں ہیں یہ دل کے کالے لوگ
منافقین ہمیں آزمانا چاہتے ہیں


ہمارے نام پہ سانسوں کو تھامنے والے
ہمارے خواب بھی بشریٰؔ بھلانا چاہتے ہیں