ضبط کی حد سے بھی جس وقت گزر جاتا ہے
ضبط کی حد سے بھی جس وقت گزر جاتا ہے
درد ہونٹوں پہ ہنسی بن کے بکھر جاتا ہے
رنگ بھر جاتا ہے پھر عشق کے افسانے میں
اشک بن بن کے اگر خون جگر جاتا ہے
آج تک عالم وحشت میں پئے جاتے ہیں
کتنی مدت میں گھٹاؤں کا اثر جاتا ہے
جام پی لیتے ہیں سب دیکھنا ہے ظرف مگر
کون کس وقت اٹھا اور کدھر جاتا ہے
دور وحشت میں محبت میں جنوں میں انساں
جو نہ ممکن ہو کسی طور وہ کر جاتا ہے
اپنے بیگانوں سے کچھ بیش تھے آزاری میں
بات رہ جاتی ہے اور وقت گزر جاتا ہے
کتنا بے خوف ہو بے درد نہ کیوں ہو آخر
آئنہ دیکھ کے اعمال سے ڈر جاتا ہے
وقت کٹ جائے اگر عالم تنہائی میں
دل میں احساس ملاقات ہی مر جاتا ہے
وہ جو دنیا کی حقیقت کو سمجھ لے انساں
اپنی منزل کی طرف سینہ سپر جاتا ہے
عالم ناز میں کچھ بھی تو نہیں تیرے سوا
اک تصور ہے جو تا حد نظر جاتا ہے
سینکڑوں داغ چمکتے ہیں تہ قلب اے شوقؔ
کتنی گہرائی میں اف عکس اتر جاتا ہے