ہے سوز دل سے ساماں روشنی کا

ہے سوز دل سے ساماں روشنی کا
یہ حاصل کم نہیں دل کی لگی کا


وہی راہیں اکیلی آج پھر میں
بھرم سب مٹ گیا ہے دوستی کا


یہ تنہائی یہ آزادی کا عالم
مزہ آنے لگا ہے زندگی کا


جہاں دل میں سمٹتے جا رہے ہیں
تماشہ ہو رہا ہے بے خودی کا


ہزاروں ساز دل میں بج رہے ہیں
اثر ہونے لگا ہے بندگی کا


ہماری آڑ لے کر چھپ رہے ہو
کھلا سب راز اب پردہ دری کا


فرشتوں سے بہت اوپر ہے انساں
بھلا جو چاہتا ہے ہر کسی کا


تمنا ہی رہی نہ شوقؔ کوئی
اثر اچھا ہوا آوارگی کا