رقص کرتے جھومتے اور جلتے پروانے ملے
رقص کرتے جھومتے اور جلتے پروانے ملے
مسکراتے موت کے سائے میں دیوانے ملے
اہل دل چلنے لگے جب بھی سوئے دیر و حرم
منتظر اس راہ میں ہر بار میخانے ملے
دور ماضی جب چراغ یاد سے روشن ہوا
وقت کی کھلتی ہوئی ہر تہ میں افسانے ملے
بھول کر آزار دل حیرت میں پتھر ہو گئے
دشمنوں کے بھیس میں جب جانے پہچانے ملے
ابتدائے عشق میں سر سبز باغات خیال
انتہائے عشق میں آباد دہرانے ملے
عالم دیوانگی میں آ گیا ایسا مقام
تو ہی تو آیا نظر جب اپنے بیگانے ملے
کون سے فکر و تصور میں پیا کرتے ہیں شوقؔ
رنگ میں ڈوبے ہوئے سب جام و پیمانے ملے