جہاں کھنچ رہے ہیں کسی کے اثر میں
جہاں کھنچ رہے ہیں کسی کے اثر میں
نہ جانے ہے کتنا فسوں اس نظر میں
تری جستجو ہی مری زندگی ہے
مرے نقش پا میں ہر اک رہ گزر میں
مری راہ منزل نے کیوں روک لی ہے
ابھی لطف آنے لگا تھا سفر میں
زمیں بن گئی آسماں بن گئے ہیں
خدا جانے کیا خوبیاں ہیں بشر میں
اسے دہر فانی سے پھر کیا تعلق
مقدر جسے لائے تیری نظر میں
رہا دین کا اور نہ دنیا کا آخر
الجھتا رہا جو اگر میں مگر میں
وہ ظاہر سے ہی دیکھ لیتا ہے باطن
یہ خوبی فقط شوقؔ ہے دیدہ ور میں