وہ پاس آئے تو دل بے قرار ہونے لگا

وہ پاس آئے تو دل بے قرار ہونے لگا
سکون دل کا مرے انتشار ہونے لگا


ہے راز کیا اے محبت بتا دے ہم کو ذرا
قریب آنے پہ کیوں انتظار ہونے لگا


ذرا سمجھنے دے ساقی یہ ماجرا کیا ہے
کہ جام پینے سے پہلے خمار ہونے لگا


پھر آسمان مقدر پہ کوئی ہلچل ہے
کہ ناگہاں مرے دل پہ غبار ہونے لگا


کبھی وہ آ بھی سکیں گے ہمیں یقیں تو نہ تھا
ملے جو خواب میں کچھ اعتبار ہونے لگا


کیا جو یاد انہیں آ گئے تصور میں
ہے شعر کچھ تو ہمیں اختیار ہونے لگا


بہار ہے کہ خزاں شوقؔ ہم یہی جانے
کہ ان کے آنے سے رنگ و بہار ہونے لگا