فائدہ کچھ نہیں اشاروں سے
فائدہ کچھ نہیں اشاروں سے
ہم بہت دور ہیں کناروں سے
دل منور ہوا شراروں سے
ہم کو نسبت ہے چاند تاروں سے
خوب مہکے خزاں کے موسم میں
زخم کھائے تھے جو بہاروں سے
گلستاں آپ کو مبارک ہو
اپنی عظمت سے ریگ زاروں سے
پھول برسے ہیں بعد مرگ ان پر
شغل کرتے رہے جو خاروں سے
یاد پھر رنگ میں نظر آئی
زندگی بھر گئی نظاروں سے
انتظاری تو جان لے لیتی
صبر ملتا رہا ستاروں سے
کوئی آواز جب نہیں ہوتی
ساز بجھتے ہیں دل کے تاروں سے
دل کی گہرائیاں کہاں تک ہیں
شوقؔ پوچھو یہ غم کے ماروں سے