یوں ان کے حسیں رخ پر زلفوں کی ہر اک لٹ ہے
یوں ان کے حسیں رخ پر زلفوں کی ہر اک لٹ ہے
جیسے گل نازک پر پتوں کا یہ گھونگھٹ ہے
تعظیم کرو یارو تعظیم کرو یارو
یہ بار کی چوکھٹ ہے سرکار کی چوکھٹ ہے
ہر حال میں رکھنا ہے ساقی کا بھرم تم کو
مے کش ہو تو پی جاؤ گر جام میں تلچھٹ ہے
یہ جان اور ایماں کی دشمن ہی سہی لیکن
انگور کی یہ بیٹی ظالم بڑی نٹکھٹ ہے
چہرہ ہو محبت ہو خوشبو ہو تبسم ہو
جی چاہے جسے دیکھو ہر شے میں ملاوٹ ہے
اب اس کی محبت پر کیسے ہو یقیں جس کے
چہرے پہ ہے نقالی باتوں میں بناوٹ ہے
اے نورؔ سمجھنا ہے بھوکمپ کے مقصد کو
یہ قہر الٰہی ہے یا وقت کی کروٹ ہے