مٹا چکا رہ الفت میں زندگانی کو
مٹا چکا رہ الفت میں زندگانی کو
زمانہ اب تو سنے گا مری کہانی کو
نظر نہ آیا سکوں کا کہیں کوئی لمحہ
بہت قریب سے دیکھا ہے زندگانی کو
سنے گا کون کسے ہوگی اس قدر فرصت
طویل کر تو رہے ہو مری کہانی کو
وہ مست مست نگاہیں اثر جما ہی گئیں
الگ شراب سے کرتا رہا میں پانی کو
کبھی تو ان کی توجہ مری طرف ہوگی
ہزار بار میں دہراؤں گا کہانی کو
ترے خیال سے غافل کہیں نہ ہو جاؤں
میں چھوتے ڈرتا ہوں اب جام ارغوانی کو
حیات نو جسے بخشی تھی نورؔ میں نے کبھی
مٹا رہا ہے وہی میری زندگانی کو