وہ کتنا دل نشیں کتنا حسیں ہے
وہ کتنا دل نشیں کتنا حسیں ہے
اسے بھی اس کا اندازہ نہیں ہے
تصور میں کوئی زہرہ جبیں ہے
نگاہوں میں ہر اک منظر حسیں ہے
محبت ہو گئی پاکیزہ یعنی
کوئی ارمان اب دل میں نہیں ہے
نظر آتا نہیں اپنے کو میں خود
یہ کیا سحر نگاہ اولیں ہے
میں کیا جاؤں اب اس کے آستاں پر
جبیں سجدوں کے قابل ہی نہیں ہے
یہ معراج تصور ہے کہ وہ اب
نظر کے سامنے ہے اور نہیں ہے
وہ منزل آ گئی دیوانگی کی
نہ دامن ہے نہ جیب و آستیں ہے
کسی کو کم کسی کو ہے زیادہ
ہے کون ایسا کہ جس کو غم نہیں ہے
مقدر پر ہوں میں اے نورؔ نازاں
در جاناں ہے اور میری جبیں ہے