یہ وصل کی وحشت ہے عبادت کی گھڑی ہے

یہ وصل کی وحشت ہے عبادت کی گھڑی ہے
ناراض فرشتوں کی قسم ٹوٹ رہی ہے


اے شعلۂ پرجوش توجہ میں ادھر ہوں
بد مست ادھر دیکھ جدھر آگ لگی ہے


سنتے ہیں خدا روٹھ گیا ہے نہیں سنتا
حالانکہ مرے شہر کا ہر شخص ولی ہے


اے یار میسر کا مزا لے کے جدا ہو
اس موسم گل میں تجھے جانے کی پڑی ہے


یہ آنکھ جسے بوجھ سمجھتا ہے میاں تو
یہ بار ہزیمت کو اٹھانے کی نفی ہے


مجھ سے مرے صیاد نے وحشت سے کہا جا
لے آج سے تو میری محبت سے بری ہے


ہر چیز بدل دی ہے مگر کچھ نہیں بدلا
کہنے کو چمن زار کی ہر شاخ نئی ہے