چراغ بس اسی امید پر جلا کرے گا

چراغ بس اسی امید پر جلا کرے گا
کہ واپسی پہ کوئی اس سے رابطہ کرے گا


ترے لئے وہ کوئی راستہ نکالے گا
وہ سب سے روٹھ بھی جائے تجھے ملا کرے گا


دعا سلام مرے اقربا کی سنت ہے
تو منہ کو پھیر کے کیسے مجھے خفا کرے گا


قسم خدا کی میں خالی کمان لایا ہوں
خبر نہیں تھی مخالف مقابلہ کرے گا


یہ بات چھوڑ کہ میں بد زباں ہوں پاگل ہوں
اے خوش گمان بتا آئنے کا کیا کرے گا


تو پر لگا کے مجھے اپنا شوق پورا کر
اسے تو پوچھ مجھے قید سے رہا کرے گا


علم تھما کے مجھے بھیڑ میں اترنے دے
فقیر لڑ کے تعلق کا حق ادا کرے گا


اسی مجاز کو آتے ہیں معجزے سارے
وہ شاخ خشک کو اک لمس سے ہرا کرے گا


یہ آدمی جو کسی قرب کی تلاش میں ہے
جہاں وجود ملا بیٹھ کر خطا کرے گا