وہ ایک پل جو گزارا ہے پاسداری میں
وہ ایک پل جو گزارا ہے پاسداری میں
سکون دیتا رہا مجھ کو بے قراری میں
وہ میری روح میں جب تک نہ بس گیا آ کر
سنبھل سکا نہ کبھی دل یہ بے قراری میں
حنائی دست کی معجز نمائیاں مت پوچھ
تمام عمر گزاری ہے شرمساری میں
ہوس ہے گوہر نایاب کی اگر تجھ کو
تو ڈوب جا کبھی شبنم کی تاب کاری میں
سما گئے ہیں نظر میں لہو لہو منظر
تجھے ملے گا بھی کیا خاک اشک باری میں
کسی کے دل کو بھلا کھینچے کیا ترا نالہ
اثرؔ اثر ہو کوئی جب نہ آہ و زاری میں