مرا یہ ملک مقدس کتاب جیسا ہے
مرا یہ ملک مقدس کتاب جیسا ہے
ہر ایک فرد گلوں میں گلاب جیسا ہے
چراغ سب نے جلائے ہیں امن کے لیکن
اندھیرا وقت کا اک آفتاب جیسا ہے
ملیں نہ ہاتھ فقط دل سے دل بھی مل جائیں
یہ دیکھنے کو مجھے اضطراب جیسا ہے
عجیب خواب کا ہے انتظار آنکھوں کو
یہ انتظار بھی شاید کہ خواب جیسا ہے
شمار میں ہمیں رکھ بے شمار ہیں ہم بھی
ہمیں گلہ ہی کہاں ہے حساب جیسا ہے
بھروسہ اب ترے وعدوں کا کیا کریں ساقی
ترا یہ جام و سبو تک سراب جیسا ہے
تو دے رہا ہے کہاں درس اتحاد اثرؔ
ترا خیال فقط انقلاب جیسا ہے