ساتھ مرے وہ جب تک ٹھہرا
ساتھ مرے وہ جب تک ٹھہرا
غم کا سایا تب تک ٹھہرا
وقت مصیبت ساتھ ہمارے
دوست کوئی بھی کب تک ٹھہرا
رسوائی کا خوف تھا شاید
نام کسی کا لب تک ٹھہرا
سورج میرے ارمانوں کا
ایک اندھیری شب تک ٹھہرا
جاڑوں کے لمحات جواں ہیں
سورج سر پر کب تک ٹھہرا
آہوں کا اتنا تو اثرؔ ہے
جن کا سایا چھب تک ٹھہرا