میلی چادر ساتھ لیے
میلی چادر ساتھ لیے
اپنی انا کی ذات لیے
کوچہ کوچہ پھرتا ہوں
تن کا لاشہ ساتھ لیے
اک درندہ جیت گیا
پھرتا ہوں میں مات لیے
ڈھونڈیں آؤ انساں کو
پاگل پن کو ساتھ لیے
ان کا دامن دیکھ چکا
آنکھوں میں برسات لیے
ٹوٹ چکے وہ تاج محل
سوئے تھے ہم رات لیے
کس کا بھروسہ آج اثرؔ
یار کھڑا ہے گھات لیے