تری خوشی نہ ملی مجھ کو تیرا غم بھی نہیں

تری خوشی نہ ملی مجھ کو تیرا غم بھی نہیں
حیات کیا ہے مری اب قضا سے کم بھی نہیں


یہ کس مقام پہ ساقی نے لا کے چھوڑا ہے
نہیں ہے ساغر جم تو یہاں پہ سم بھی نہیں


ہے میرے ظرف میں جتنا بھرا وہ پیمانہ
شراب اس میں ہے جو اس میں کوئی دم بھی نہیں


اتار لیتا میں سارے غموں کا اس سے نشہ
حریف غم کا ہو ایسا یہ جام جم بھی نہیں


جوان سال ہوں مجھ کو نہ شان پیری دے
سیاہ ریش ابھی ہوں کمر میں خم بھی نہیں


ترے الم نے کیا ہے اثرؔ کو پژمردہ
ملاؤں زیست سے آنکھیں اب اتنا دم بھی نہیں