ادھر رکی ہوئی ہے رات جگنوؤں کا رقص ہے
ادھر رکی ہوئی ہے رات جگنوؤں کا رقص ہے
ادھر ندی کے حسن پر سیاہیوں کا رقص ہے
چھپی ہوئی ہے چاندنی سفید بادلوں کے بیچ
سکوت کی عمارتوں پہ بجلیوں کا رقص ہے
اترتی تیرتی نظر یہ یاد یار کا سفر
اسی خلا کے درمیان اژدہوں کا رقص ہے
جہاں سے ختم ہو رہی وہیں سے پھر بنی نئی
مری اجاڑ فکر میں تباہیوں کا رقص ہے
نئی رتوں کی موج میں پرانے غم کی داستاں
سو کچھ نیا نہیں ہے دوست زاویوں کا رقص ہے