تنہا سفر ہے اور ہے یادوں کی قبر گاہ

تنہا سفر ہے اور ہے یادوں کی قبر گاہ
ٹھہری ہوئے سماں میں ڈرے جھینگروں کی آہ


مدھم لپکتی لو سے چمک اٹھتا آسماں
ایسے میں درد ہجر کی ہلکی سی اک نگاہ


سوز دروں میں مست ہوں پھر بھی کوئی کمیں
ہے چاہتی ذرا کی ابھی اور ہوں تباہ


مجھ سے خلا میں بات بھی کرنا نہیں رفیق
ایسے خلا میں بات بھی کرنا ہے اک گناہ


سب کا خدا ہے اور میاں میرا کوئی اور
میرے خدا کی زلف سے روشن ہے شب ماہ