کھویا ہوا دماغ ہے وحشت ہے اور تو

کھویا ہوا دماغ ہے وحشت ہے اور تو
دنیا کے چند لوگ ہیں ظلمت ہے اور تو


اجڑے ہوئے دیار میں خوابوں کی راکھ پر
بے رحم سی امید کی زینت ہے اور تو


مجھ کو شب فراق میں اچھا ہی لگ رہا
نشہ ہے مرگ یاس کا راحت ہے اور تو


دریا کی پیاس پیاس تھی ساغر سے بجھ گئی
لیکن ہماری پیاس میں کلفت ہے اور تو


شوق وصال دیکھ کے نکلے ہیں جسم سے
جانا نہیں ادھر کے جدھر چھت ہے اور تو