نہ ہوتا درد تو واپس سنور بھی سکتا تھا

نہ ہوتا درد تو واپس سنور بھی سکتا تھا
ٹھہر گیا ہے جو لمحہ گزر بھی سکتا تھا


ندی کی اور گیا تھا اسی ارادے سے
پلٹ گیا ہوں مری جاں اتر بھی سکتا تھا


مجھے تلاش کریں گی وہ بھولی آنکھیں کل
وگرنہ زخم تھے اتنے کہ مر بھی سکتا تھا


یہ اور بات کسی اور کا نہ رہنے دیا
وہ ایک شخص جو بھیتر ٹھہر بھی سکتا تھا


جسے نصیب ہوں یادیں اداس آنگن کی
کبھی وہ ہنستے ہوئے رو بکھر بھی سکتا تھا