ٹوٹتی فریاد کی سوچو کبھو اے ہم نشیں
ٹوٹتی فریاد کی سوچو کبھو اے ہم نشیں
اس جنوں کے باد کی سوچو کبھو اے ہم نشیں
لطف تم کو آ رہا ہے چار دن کے عشق میں
تا ابد اک یاد کی سوچو کبھو اے ہم نشیں
آنکھ رونے بھی نہ پائے اور دل ہو غم زدہ
ضبط کے میعاد کی سوچو کبھو اے ہم نشیں
تم کبھی پہلو بدل کر اس زمیں سے آ لگو
پھر دل برباد کی سوچو کبھو اے ہم نشیں
شعر سن کر واہ کرنا لازمی تھا یار پر
بے بسی پر داد کی سوچو کبھو اے ہم نشیں