لغزش سے رہنماؤں کی جب ہم سنبھل گئے
لغزش سے رہنماؤں کی جب ہم سنبھل گئے
منزل قریب آئی تو رستے بدل گئے
ہر راہ رو سے تیرا پتہ پوچھتے ہوئے
ہم راہ دیر و کعبہ سے آگے نکل گئے
پھوٹی ہے جب بھی تیرے تبسم کی اک کرن
گھبرا کے خود بخود ہی اندھیرے پگھل گئے
رندان تشنہ کام کو اب مے سے کیا غرض
ساقی کی چشم مست سے جب دور چل گئے
اب بھی جبین زیست پہ فاقوں کی ہے شکن
مانا کہ زندگی کے تقاضے بدل گئے
ان کے نقوش پا کا یہ اعجاز دیکھیے
ذرے مہہ و نجوم کے سانچے میں ڈھل گئے
جب بھی نکھر گیا مرے شعروں کا بانکپن
اے دوست فکر و فن کے کئی دیپ جل گئے
ایسی چلیں ہوائیں حوادث کی اے نشاطؔ
افسانۂ حیات کے عنواں بدل گئے