ڈاکٹر عبد القدیر خان: : کرشمہ بن کے آیا وہ
محسنِ پاکستان کی وفات پر بہت سے محب وطن شعرا اور ادیبوں کو خوبصورت اور دل نشیں انداز میں خراجِ تحسین پیش کیا ، کہ زندہ قومیں اپنے محسنوں کو اسی طرح رخصت کیا کرتی ہیں۔
محسنِ پاکستان کی وفات پر بہت سے محب وطن شعرا اور ادیبوں کو خوبصورت اور دل نشیں انداز میں خراجِ تحسین پیش کیا ، کہ زندہ قومیں اپنے محسنوں کو اسی طرح رخصت کیا کرتی ہیں۔
داکٹر عبدالقدیر خان ، محسنِ پاکستان ، قائدِ اعطم محمد علی جناح کے بعد وہ دوسرے راہنما تھے ، کہ جن کی سیادت ، عظمت اور احسانات پر پورا وطن متفق تھا۔ ان کی وفات نے ہر محب وطن آنکھ کو سوگوار و اشکبار کر دیا ہے۔
محسن کش قوم پر مسلط سربراہ، پرویز مشرف نے جب سرِ بازارِ عالم محسنِ پاکستان کو رسوا کیا ، تو یہ صرف قصے کی ابتدا تھی ، قصہ ختم تو شاید کل بھی نہیں ہوا، کہ جب کوئی حکمران ، حکومتی نمائندہ ، اداروں کے سربراہان ، کوئی شریک نہیں ہوا، اور جانے والا آپ اور ہم کو سوگوار کر کے چل دیا۔ جعفر ملک صاحب مرحوم نے تو بہت پہلے لکھ دیا تھا، "مِری لاشِ بے کفَن پر ، خس و خار تک نہ روئے۔۔۔۔۔ مَیں وطن میں اجنبی تھا ، مجھے یار تک نہ روئے" خیر صاحب ، دل والے خود ہی لکھ لیں گے سرخی اس افسانے کی
اس وقت بھی شاید ایل کے ایڈوانی (یا کوئی اور بھارتی نامور لیڈر) لوک سبھا سے خطاب کر رہا تھا اور پاکستان کے متعلق ہزیان بک رہا تھا، کہ "ہم آزاد کشمیر بھی فتح کریں گے، یہ بھی کریں گے وہ بھی کریں گے"، اسی دوران ، یکایک کوئی خاتون بھاگتی ہوئی بھارتی پارلیمنٹ میں داخل ہوئیں اور تقریبا" چیختے ہوئے کہا کہ 'پاکستان نے ایٹمی دھماکہ کردیا'
ماہِ ربیع الاول کا نعتِ رسول مقبول ﷺ سے ایک خاص ربط ہے ۔ یوں تو ہر چلتی سانس کی زادِ راہ درودِ شریف کرنی چاہیے ، کہ خود ربِّ ذوالجلال نے بھی سورۃ احزاب میں یہی فرمایا ہے ، اور یہی اس باری تعالیٰ اور اس کے فرشتوں کی سنت بھی ہے کہ "صلّے علیٰ کہیے۔۔۔۔"
سوالی اجازت طلب کرنے کے بعد دریافت کرتا ہے۔ "اے شہنشاہ اعظم، آپ استاد کو باپ پر کیوں ترجیح دیتے ہیں؟ چند لمحوں کو دربار میں سناٹا چھا جاتا ہے۔ اس سکوت کو توڑتی ایک رعب دار آواز بلند ہوتی ہے۔"باپ تو مجھے آسمان سے زمین پر لایا اور میرا استاد ارسطو مجھے زمین سے آسمان پر لے گیا۔ باپ سبب حیات فانی اور استاد سبب حیات جاودانی ہے۔ باپ میرے جسم کی پرورش کرتا ہے اور استاد میری روح کی۔۔ جی ہاں اگر آپ پہچاننے میں غلطی نہیں کر رہے تو یہ اپنے وقت کے عظیم حکمران سکندر اعظم ہیں جنہیں دنیا الیگزینڈر دی گریٹ کے
نعت ایسا ہنر ہے کہ بغیر سعادت حاصل نہیں ہوتا۔بارگاہِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہِ وسلم میں گلہائے عقیدت بھیجنے کی جستجو کرنا ہی اپنی جگہ باریابی کا ایک راستہ ہے۔ یہ مرتبہ بلند مِلا ، جِس کو مِل گیا۔۔۔۔۔۔
اسے قادیانیوں کے خلاف لکھنے پر پھانسی کی سزا سنا دی گئی، کال کوٹھڑی میں بند کر دیا گیا، لیکن اس نے رحم کی درخواست نہیں کی۔ وہ رحم کھانا تو جانتا تھا، دوسروں پر رحم کھاتا بھی تھا لیکن رحم کی بھیک مانگنا اس کی سرشت میں نہیں تھا، اس نے کبھی دست سوال دراز نہیں کیا۔ اس نے زندگی کی بھیک مانگنے سے انکار کر دیا، اس سے زندگی چھیننے کی خواہش رکھنے والے اس کی آنکھوں کے سامنے زندہ درگور ہو گئے۔ لیکن اس سے زندگی اب تک چھینی نہیں جا سکی۔
ایسی بہت سی مثالیں موجود ہیں ، کہ بہت سے لوگوں کو نورہدایت ملنے کا ذریعہ سید مودودی کی کتب بنی ہیں، بلکہ ایک نو مسلم تو یہاں تک کہہ گئے(ایک بزرگ عالم دوست سے حج کے موقع پر) کہ قیامت کے دن میں اللہ کے دربار میں یہی گواہی دوں گا کہ اس (دینیات) کتاب والے (سید مودودیؒ) کی مغفرت فرما، ان کی وجہ سے ہی مجھے اسلام کی روشنی ملی ہے۔
گھبراؤ نہیں، رکّھو یہ یقیں وہ شاہِ بلوطِ انسانی، جو ظاہر میں کل ٹوٹ گرا وہ سورج بن کر اُبھرے گا مانو، وہ کل کا سویراہے