گلہائے عقیدت: شیخ سعدیؒ کی تضمین میں
شیخ سعدیؒ کے مشہور نعتیہ قطعہ کی تضمین، گلہائے عقیدت بحضور سرورِ کونین ﷺ
شیخ سعدیؒ کے مشہور نعتیہ قطعہ کی تضمین، گلہائے عقیدت بحضور سرورِ کونین ﷺ
نعت گوئی ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہِ وسلّم سے والہانہ محبت و عقیدت کے اظہار کا نام ہے ۔ لیکن یہ بات دھیان میں رہنی چاہیے کہ با مقصد نعتیہ کلان زیادہ پر اثر ٹھہرتی ہے ، نیز اس کا اجر بھی سِوا ہو گا ۔ رسول اللہﷺ سے اپنی الفت کے اظہار کے علاوہ کوئی ان کی ذاتِ اقدس سے وابستہ کوئی آفاقی پیغام کا مضمون بھی نعت میں آئے تو بات بنے۔ مثلاً ، زیرِ نظر نعت میں ، یہ شعر ختمِ نبوّت کا پیغام دے رہا ہے ۔ " بہرِ تصدیقِ سندنامۂ نسبت، عشاق ، مُہرِ خاتم کے نگینے کی طرف دیکھتے ہیں "
صبحِ ازل سے آج تک لاکھوں ، کروڑوں جانثارانِ رسالت نے نعتیں کہیں ہوں گی ، مگر اس نعت کا سب نعتوں میں شاید الگ ہی مقام ہے ۔ ماہر القادری ، خوبصورت لب و لہجے کے مالک شاعر تھے ، اور کراچی سے شائع ہونے والے میگزین ، " فاران " کے بھی مدیر تھے۔
کیا کیا گزری، کہاں تک اس کی تفصیل کی جائے؟ خلاصہ یہ کہ طائف میں وہ پیش آیا جو کبھی نہیں پیش آیا۔ لیکن طائف کی بات صرف اسی پر ختم ہو جاتی ہے۔ سڑک مڑ رہی تھی لیکن لوگوں نے راستہ کو سیدھا خیال کیا، چوراہے پر کھڑے تھے لیکن کوئی نہیں ٹھٹکا، حالانکہ بخاری میں سب سے بڑی مصیبت کے سوال میں جب یہ ذاتی اقرار موجود تھا:سب سے زیادہ سخت اذیت ان سے (نہ ماننے والوں سے) مجھے اس گھاٹی میں طائف کے دن پہنچی ۔جس دن میں نے عبد یا لیل کے بیٹے پر اپنے کو پیش کیا تھا۔
آپؐ کی تعلیم وتربیت نے صحرا نشینوں میں جو ذہانت وفطانت، جو اِخلاص وایمان، جو نظم وضبط، جو بلند نصب العین اور جو اعلیٰ اَخلاقی اَقدار پروان چڑھائے اور ان کے اندر اِمامت وقیادتِ دنیا کی زبردست صلاحیتوں کی نشونما وآبیاری کی اور جو جہانگیر ، جہاں دار، جہاں آراء اور جہان بین عبقری (Genius)شخصیات تیار کیں وہ صرف آپؐ ہی کا حصہ اور آپؐ کی سید الاولین والآخرین اور خاتم النبیینؐ و رسولؐ ربّ العالمین ہونے کی بیّن وناقابلِ تردید دلیل ہے۔
افتخار عارف انتہائی قادر الکلام شاعر اور شگفتہ لب و لہجے کے مالک انسان ہیں ۔ انہوں نے کرب و بلا ، استعماری قوتوں کے انکار ، جبر کے خلاف مزاحمت اور دِیا جلائے رکھنے کے عزم کو ہمیشہ اپنی شاعری سے پیوست رکھا ہے ، کہ شاید سلیم احمد کے فکری جانشین کے یہی شایانِ شاں تھا۔ زیرِ نظر نعتِ رسولِ مقبول ﷺ شاعر کے خوبصورت و پر عقیدت جذبات کی غماز ہے۔
نعت ایسا ہنر ہے کہ بغیر سعادت حاصل نہیں ہوتا۔ اسی نعت مبارکہ کی مثال لے لیجیے۔ اس نعت کے خالق کا نام نا معلوم صحیح ، لیکن بارگاہِ رسالت مآب میں بھیجے گئے ان گلہائے عقیدت کا چرچہ آج گلی گلی اور کوچے کوچے میں ہے ۔ خاتم النبین و مرسلین ﷺ کی شان میں نعت کہنے کی جستجو کرنا ہی اپنی جگہ باریابی کا ایک راستہ ہے۔ یہ مرتبہ بلند مِلا ، جِس کو مِل گیا۔۔۔۔۔۔۔
يہ ممكن نہيں كہ وہ شخص جھوٹا ہو ، كہ 1400 سو سال جھوٹ كا زندہ رہنا محال ہے۔ اور كسى كے ليے يہ بھى ممكن نہيں ہے كہ وہ ڈيڑھ ارب لوگوں كو دھوكہ دے سكے۔ آپ کچھ لوگوں کو لمبے عرصے کے لیے جھوٹ پر قائل کر سکتے ہیں ۔ اسی طرح آپ بہت سے لوگوں کو کچھ عرصے کے لیے دھوکے میں رکھ سکتے ہیں ، لیکن یہ ممکن نہیں کہ ایک بہت بڑے طبقے کو ، جو اس وقت ڈیڑھ ارب سے زائد لوگوں پر مشتمل ہے ، چودہ سو سال سے بھی زیادہ عرصہ تک کسی جھوٹ پر قائل کیا جا سکے ۔ یہ ہے اس کوہِ حرا پر چڑھ کر پکارنے والے کے صادق ہونے کی دلیل۔
فنِ نعت میں بہت سے اساتذہ و تلامیذ نے نام کمایا ، کہ یہ فن ہی ایسا ہے ، جو مٹی کو سونا اور خاک کو آسمان کر دیتا ہے۔ مولانا ولی محمد رازی بھی بہت خوبصورت انداز میں بارگاہِ نبوت میں گلہائے عقیدت پیش کرنے والوں میں سے ایک ہیں۔ زیرِ نظر نعت کی انفرادیت یہ ہے کہ اس میں کوئی نقطہ نہیں، یعنی یہ بے نقط نعتِ رسولِ مقبولﷺ ہے۔
جو شخص 'مُربّی' کے منصب پر فائز ہو ، لوگوں کے درمیان وعظ و ارشاد کرتا ہو ، دوسرے اس کی باتیں سننے اور ان پر عمل کرنے کے خواہاں رہتے ہوں اسے اپنے اندر درج ذیل اوصاف پیدا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے ۔